اردوئے معلیٰ

خوشی سمیٹ کے رکھ اور غم سنبھال کے رکھ

ہوا ہے عشق میں جو کچھ بہم ، سنبھال کے رکھ

 

یہ قیمتی ہیں ، اِنہیں یوں نے بے دریغ لُٹا

ان آنسوؤں کو سرِ چشمِ نم سنبھال کے رکھ

 

ہمیں تو خیر گنوا ہی دیا ہے تو نے مگر

ہماری یاد کو تو کم سے کم سنبھال کے رکھ

 

یہ دور عرضِ سخن کا نہیں ، سکوت کا ہے

ابھی اثاثۂ لوح و قلم سنبھال کے رکھ

 

یہاں کی خاک بھی حقدار احترام کی ہے

دیارِ عشق میں فارس قدم سنبھال کے رکھ

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ