اردوئے معلیٰ

خیالِ خام لیے، حرفِ ناتمام لیے

گدائے شوق ہے حاضر فقط سلام لیے

 

ہوائے تیز سے تھرا رہے تھے خواب شجر

کہ دستِ ساعتِ تسکیں نے بڑھ کے تھام لیے

 

خدا کا شکر کہ وردِ زباں رہے ترے نام

سوال جیسے بھی تھے ہم نے تیرے نام لیے

 

کرم ہوا کہ خطاؤں کو تیری رہ سوجھی

کہاں کہاں بھلا پھرتا انہیں غلام لیے

 

ابھی سے شہرِ عطا نے دریچے کھول دیے

ابھی تھے حرف نے مشکل سے چار گام لیے

 

تو اپنی دید کی صبحِ کرم بنا اس کو

کھڑا ہوں اپنی ہتھیلی پہ ایک شام لیے

 

وجود، شوق کے منظر میں ڈھل گیا مقصودؔ

ابھی تھے خواب نے دستِ عطا سے جام لیے

 

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ