خیال و خواب سے آگے گماں سے بالاتر
یہ خآمشی ہے مری جاں بیاں سے بالاتر
تمہاری کھوج میں پرواز کر کے آ پہنچا
میں لامکان سے آگے، مکاں سے بالاتر
عجیب ضد ہے کہ اک بار جا کے دیکھ سکوں
جہاں نظر نہیں جاتی وہاں سے بالاتر
میں دھول چاٹ رہا ہوں تمہاری خواہش پر
مری تو خاک بھی تھی آسماں سے بالاتر
موازنہ کبھی حسرت کا غم سے کر دیکھوں
کہاں سے پست رہا ہے کہاں سے بالاتر
میں دل بنا کے تری ٹھوکروں میں رکھتا ہوں
یہ کاروبار ہے سود و زیاں سے بالاتر
مٹا ہے جو وہ کوئی عام سا وجود نہ تھا
مرے نشان کو ڈھونڈو نشاں سے بالاتر
نہ ہو سکے تو مرے پر ہی نوچ لے ناصر
جو ہو سکے تو اڑا کہکشاں سے بالاتر