دامان تار تار ، گریباں پھٹے ہوئے
لوٹے ہیں گردِ راہ ِ وفا سے اٹے ہوئے
تم نے چھوا تو ٹوٹ کے ریزے بکھر گئے
ہم اپنی خواہشوں میں کھڑے تھے بٹے ہوئے
ہم صرف اک تخیلِ آوارہ گرد ہیں
مدت ہوئی ہے ذہنِ رساء سے کٹے ہوئے
دل سے ترے خیال کی تصویر بھی گئی
دیوار کا نصیب فقط چوکھٹے ہوئے
ناصر یہ عشق ہی رہے شاید کہ آخری
بڑھتا ہوا جنون ہے اور دل گھٹے ہوئے