درود ان پر سلام ان پر، یہ ورد رائج ہے دوجہاں میں
زمیں پہ امت شجر پہ طائر، فرشتے پڑھتے ہیں آسماں میں
ہوائے بطحا پیام لائی، کہ مسکراتے ہیں شاہِ والا
غرور ٹوٹا خزاں رُتوں کا، گلاب کھلنے لگے خزاں میں
بہار اُن سے ہے گلشنوں میں، قرار اُن سے ہے دھڑکنوں میں
اُنہی سے ہے زندگی میں رونق، بسے ہوئے ہیں جو قلب و جاں میں
میں اپنے دکھ درد کے فسانے، سناؤں گا سوچ کر گیا تھا
درِ نبی پر کہا نہ کچھ بھی، پڑی تھی لکنت مری زباں میں
مرے نبی کے بدن کی خوشبو نے دو جہاں کو کیا مسخر
ختن کا مشک اور عود و عنبر، عبیر تھے جانے کس گماں میں
طلب کرے گا خدائے قہار عاصیوں کو بروزِ محشر
تو دیکھ لینا چُھپیں گے عاصی، شفیعِ محشر کے آستاں میں
پکارے اشفاقؔ جو بھی جب بھی، کوئی سوالی کوئی بھکاری
نہیں، نہیں ہے سرشت اُن کی، جواب ہوتا ہے صرف ہاں میں