دسمبر جارہا ہے
سبز شاخوں سے
شگوفے چھین کر
سوچوں پہ چھائی کہرسی ہے
بے ثباتی کا یہ عالم ہے
ہراِک سہما ہوا ہے
ہر کوئی ڈرتا ہے
جانے کس گھڑی کیا حادثہ ہو جائے
سب پر خوف طاری ہے
گذرتے اِس برس نے
دُکھ دیے ہیں
چین چھینا ہے
ہمیں لیکن
ابھی جینا ہے
اِس اُمید پر
بدلیں گے یہ حالات
اگلے سال
ہوگی زندگی کی بات
سبز شاخوں سے
شگوفے چھین کر
سوچوں پہ چھائی کہرسی ہے
بے ثباتی کا یہ عالم ہے
ہراِک سہما ہوا ہے
ہر کوئی ڈرتا ہے
جانے کس گھڑی کیا حادثہ ہو جائے
سب پر خوف طاری ہے
گذرتے اِس برس نے
دُکھ دیے ہیں
چین چھینا ہے
ہمیں لیکن
ابھی جینا ہے
اِس اُمید پر
بدلیں گے یہ حالات
اگلے سال
ہوگی زندگی کی بات