دعا ہے زندگی جب تک مری سفر میں رہے
حبیبِ پاک کا جلوہ ہی چشمِ تر میں رہے
حضور آپ کی سیرت ہو رہنمائے حیات
حضور آپکا اسوہ مری نظر میں رہے
کسی کی روح کا سامان ہو جو طیبہ میں
بتا اے گردشِ دوراں وہ کس نگر میں رہے
یہ عشق و وصل کے دعوے ہمیں نہیں زیبا
یہی بہت ہے کہ ہم اُن کی رہگزر میں رہے
درودِ پاکِ نبی اور مدحتِ آقا
ہمیشہ روشنی بن کر ہمارے گھر میں رہے
ہیں عقل والے پریشاں ترے اشاروں پر
دلِ صحابہؓ لٹے کیسے کس اثر میں رہے
یہ بندہ پروری ان کی ہے عجز ہے کیا ہے
کہ بن کے عرش کے مہماں دلِ بشر میں رہے
عطا ہو ان کی تو پھر حسنِ نعتِ پاک شکیلؔ
عجب نہیں ہے اگر دستِ بے ہنر میں رہے