آنکھوں کے دریچوں سے دھڑکن میں اُتر آئی
دل جیسی کوئی صورت دِلّی میں نظر آئی
پہلے تو اُداسی سے دھندلائی رہیں آنکھیں
پھر آئے نظر غالب اور شام نکھر آئی
رات آئی تو کوچوں میں تھیں میر کی آوازیں
پھر آنکھ کہاں جھپکی ، پھر نیند کدھر آئی
اُس شہر میں یوں کھویا ، ہنستے ہوئے میں رویا
یتی ہوئی صدیوں سے اپنوں کی خبر آئی
پہنچا تو تھا پورا میں ، لوٹا ہوں ادھورا میں
سو جسم تو لے آیا پر روح نہ گھر آئی
دلی کے نہ تھے کوچے، اوراقِ مصور تھے
"جو شکل نظر آئی ، تصویر نظر آئی "