اردوئے معلیٰ

دل سوئے منزل نہیں یا میں نہیں

اب مری مشکل نہیں یا میں نہیں

 

کیا رکاوٹ ہے حصول یار میں

تو مرے قابل نہیں یا میں نہیں ؟

 

نوچ کے پھینکوں گی ساری خواہشیں

یا تو اب یہ دل نہیں یا میں نہیں

 

پیار اس کو ٹوٹ کے آنے لگا

آج میرا تل نہیں یا میں نہیں

 

عشق میرا ہو یا میری جان چھوڑ

روز کی کل کل نہیں یا میں نہیں

 

یار پھر ان دوریوں کا کیا جواز

تو مجھے حاصل نہیں یا میں نہیں

 

عید پہ بھی چھٹیاں نہ دے تجھے

تیرا مالک مل نہیں یا میں نہیں

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ