دل مدینہ بنا دیا جائے
نعت کہنا سکھا دیا جائے
آنکھ کرتی رہے طوافِ حرم
اب تو پردہ اٹھا دیا جائے
ان کی یادوں پہ جاں کا سرمایہ
مثلَ آنسو لٹا دیا جائے
دل ہے تسکین کا تمنائی
داغِ طیبہ سجا دیا جائے
کیوں میرے آگے پیچھے پھرتے ہیں
حادثوں کو بھگا دیا جائے
سر دھرا ہے تمہاری چوکھٹ پر
درد و غم کو مٹا دیا جائے
جس زمیں پر ہیں نقشِ پائے رسول
اس زمیں میں سلا دیا جائے
تیرے بچوں کے میں قصیدے لکھوں
مجھ کو شاعر بنا دیا جائے
کلمہ توحید پڑھ لیا مظہرؔ
عشق کلمہ پڑھا دیا جائے