دل میں حمد و نعت کی محفل سجانی چاہئے
زندگی میں اس طرح بھی شاد مانی چاہئے
ہو گئی مدت دیارِ غیر میں رہتے ہوئے
اب تو شہرِ مصطفٰی میں دانہ پانی چا ہئے
آپ کی چوکھٹ پہ ہو جائے کبھی جو حاضری
شکر کے سجدوں کی ماتھے پر نشانی چاہئے
اپنے ہاتھوں سے سجاؤں پھول کشتِ نور میں
گلشنِ طیبہ کی مجھ کو باغبانی چاہئے
چہرۂ انور کی جس میں ہو زیارت خواب میں
ایک ایسی نیند ایسی شب سہانی چاہئے
لب نہیں کھلتے کبھی آقا کے در کے سامنے
حالِ دل کہنے کو اشکوں کی روانی چاہئے
شاہ کا طوقِ غلامی ہو مری گردن میں ناز
قبر میں سرکار کی پہچان آنی چاہئے