دل میں سرکار کی یادوں کو بسائے رکھا
خود کو بس نعت نگاری میں لگائے رکھا
آپ کے نوُر سے ملتی رہی خامے کو ضیا
اِک دیا آپ کی مدحت کا جلائے رکھا
نامِ احمد کے سوا کچھ نہیں بھاتا مجھ کو
بس اسی نام کو اس دل میں چُھپائے رکھا
آپ آئیں گے کسی روز مرے گھر آقا
اپنی پلکوں کو سرِ راہ بچھائے رکھا
مرکزِ نُور پہ آئے تو ہوئے اشک رواں
اُن کی دہلیز پہ سر اپنا جُھکائے رکھا
عُمر بھر ہوتی رہی لطف و کرم کی بارش
ناز عاصی کو بھی طیبہ میں بلائے رکھا