دل میں کچھ بھی نہ رہے رب کی محبت کے سِوا
اور کیا چاہیے سرکار کی چاہت کے سِوا
رب کی رسّی کو پکڑ ، ورنہ بکھر جائے گا
ہاتھ آئے گا نہیں کچھ بھی ندامت کے سوا
بندگی رب کی کرو، صحبتِ صالح پکڑو
قیمتی شے ہے کوئی دہر میں عزت کے سوا
رب کا منشا ہے یہی ، سنتِ آقا ہے یہی
اُلفتیں دل میں رہیں بغض و عداوت کے سوا
کچھ نہیں مانگتا مولا ! ترا بندہ تجھ سے
حشر میں سیّدِ عالم کی شفاعت کے سوا
نظمِ دنیا کو ذرا غور سے دیکھو سمجھو
کام یہ کون کرے گا بھلا قدرت کے سوا
بے گناہوں کو یہاں قتل جو کر دیتے ہیں
کچھ نہیں اور ملے گا انہیں ذلت کے سوا
بات دو لفظوں میں یوں ختم کیے دیتا ہوں
’’ کچھ نہیں اور یہاں جلوئہ وحدت کے سوا ‘‘
بچ نہیں پائے گا کوئی بھی اَجل سے طاہرؔ
ہے فنا سب کے لیے دہر میں قدرت کے سوا