دل نے امیدیں عبث پالی ہوئی ہیں
یہ شبیں تو اور بھی کالی ہوئی ہیں
جھانکتی ہیں دن کی خوشیاں کھڑکیوں سے
ہم نے ساری رات پر ٹالی ہوئی ہیں
نغمہء کہنہ میں اے حیران سامع
میں نے کچھ تانیں نئی ڈالی ہوئی ہیں
بھولی بھالی خواہشوں کی فاختائیں
سب اسیرِ بے پر و بالی ہوئی ہیں
آرزوئیں آنکھ سے بہتی ہیں کیسے
دل کے سانچے میں اگر ڈھالی ہوئی ہیں
اے مرے خامے سفر کو تیز کر اب
مسندیں احساس کی خالی ہوئی ہیں