دل چاہتا ہے یادِ شہِ دیں میں خوب رو
چمکا اسی طرح سے تو اپنے نصیب کو
کیسا کلام؟ نقدِ سخن کیا ہے؟ حرف کیا؟
میں جاں ہی وار دوں درِ اقدس پہ لے چلو!
میری بھی روح آپ کے در کا کرے طواف
گونجے سماعتوں میں یہ آواز ’’کچھ کہو‘‘
طیبہ کی سر زمین میں بسنے کی آرزو
اِک بے صدا دعا میں ڈھلے، وہ کہیں کہ ’’لو‘‘
’’سن لی گئی تمہاری دلی آرزو یہاں
اب تم اِسی دیار میں آ کر رہو سہو
تم کو تو بعدِ مرگ بھی رہنا ہے اِس جگہ
ہاں دو نفس حیات یہیں پر بسر کرو‘‘
اے کاش! میرا خواب حقیقت میں ڈھل سکے
اے کاش! روح کا یہ تکلّم نبی سے ہو
پل بھر میں، میں دیارِ نبی تک پہنچ سکوں
مجھ کو سفر کی ایسی سہولت نصیب ہو
توبہ عزیزؔ! اپنے گناہوں سے چاہیے
فردِ عمل کو اشکِ ندامت سے خوب دھو