دل کو ٹٹولئے، کوئی ارمان ڈھونڈئیے
پھر سے کسی نظر میں پرستان ڈھونڈئیے
یونہی گزر نہ جائے یہ موسم شباب کا
آرائشِ حیات کا سامان ڈھونڈئیے
کب تک گلاب ہاتھ میں لے کر پھریں گے آپ
موسم بہت شدید ہے گلدان ڈھونڈئیے
دیوار ہی گری ہے، یہ بازو نہیں گرے
ملبہ اٹھا کے سائے کا امکان ڈھونڈیے
اٹھتی ہے اک صدا سی مشینوں کے شور میں
ہو گا یہیں کہیں کوئی انسان، ڈھونڈئیے
ملیے کبھی اکیلے میں خود اپنے آپ سے
سارے نقاب اُتار کے پہچان ڈھونڈئیے