اردوئے معلیٰ

دنیا ہے اجالوں کے اندھیروں میں گرفتار

دانش کے دعاوی میں جہالت کی ہے چہکار

 

تہذیبِ نوی رکھتی ہے آپ اپنے ہی آزار

وحشت سےتعصب سے عداوت سے ہے بیمار

 

ہر چیز چمکتی ہوئی بِک جاتی ہے لیکن

سونے کی طرح لیتے ہیں مٹی بھی خریدار

 

ابلیس نے دہکائی ہے یہ آتشِ نفرت

ابلیس کا حربہ ہے یہ آزادئ اظہار

 

دبتا ہو جہاں جس سے بھی حق اور کسی کا

آزادئ اظہار ہے بربادیٔ افکار

 

افسوس کہ اس ذات کی کرتے ہیں اہانت

جو اپنے پرائے پہ ہمیشہ ہے کرم بار

 

مغرب کے سیہ کار و سیہ بخت ، شریرو

وہ محسنِ انساں تو ہیں ہر ایک کے غم خوار

 

ان جیسا ہوا کوئی نہ ہو گا کبھی رہبر

تصویرِ کرم ان کا ہے ہر صاحبِ کردار

 

تم اپنے رویّوں کو جو تولو کبھی خود ہی

شرم آئے تمھیں دیکھ کے مٹتی ہوئی اقدار

 

روکے سے نہ اب غرب میں اسلام رکے گا

یہ شر کی ہوائیں ہیں کسی خیر کے آثار

 

آفاق پہ مغرب کے بھی اب ہو ں گے اجالے

وہ دیکھو محمد کے ابھرتے ہوئے انوار

 

گونجیں گے یہاں اسمِ محمد کے ترانے

ہونے کو ضمیر آج ہے انسان کا بیدار

ـ

کرتے ہیں بپا فتنے جو افرنگ کے ساحر

لازم ہے کہ مومن بھی ہوں اب خواب سے ہشیار

 

پڑھتے ہیں قصیدے جو سدا عشقِ نبی کے

اب وقت ہے ڈھل جائیں اسی عشق میں کردار

 

سینے ہوں محمد کی محبت کے خزینے

اعمال ہوں سب سیرتِ انور سے ضیا بار

 

ہر قریہ میں پھیلائیے اس نام کی خوشبو

ہر کوچۂ نفرت میں کھلیں پیار کے گلزار

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔