دونوں عالم پہ کیے آپ نے احساں کتنے
یعنی آباد ہوئے دشت و بیاباں کتنے
ہر قدم اُن پہ درودوں کے تحائف بھیجے
مرحلے زیست کے ہوتے گئے آساں کتنے
رشکِ فردوسِ بریں خاک مدینے کی ہوئی
ورنہ دنیا میں چمن اور ہیں میداں کتنے
اُن کی نسبت سے اجاگر ہوئے میرے الفاظ
عشقِ سرکار نے بخشے مجھے عنواں کتنے
ورنہ پہچان تھی معدوم جہاں میں اپنی
اُن کے دیکھے سے ہوئے ہم بھی نمایاں کتنے
خوشبوئیں اُن سے لپٹنے کے لیے ہیں بے چین
اُن کی آمد کو ترستے ہیں گلستاں کتنے
بھیجتے رہنے سے آقا پہ درود اور سلام
اوج پا کر ہوئے ہیں صاحبِ عرفاں کتنے
مدعا اُن سے بیاں ہونا تھا میرا گویا
ہوتے جاتے ہیں مرے درد کے درماں کتنے
برکتیں ، نعمتیں ، خوشحالی و خوش بختی فدا
لائے سرکار مرے واسطے ساماں کتنے
یادِ سرکار سبھی زخم رَفو کرتی ہے
سلتے دیکھے ہیں فدا چاک گریباں کتنے