اردوئے معلیٰ

دیتی نہیں ہیں جلوتیں راحت کبھی کبھی

دیتی ہے جو سکون یہ خلوت کبھی کبھی

 

کب تک رہِ وصال میں بیٹھا رہے گا ، ہجر !

’’ہوتی ہے تیرے نام سے وحشت کبھی کبھی‘‘

 

جائیں گے ہم فقیر بھی بطحا میں ایک دن

ملتی ہے اس خیال سے فرحت کبھی کبھی

 

بن کے گدا جو آپ کے در پر ہیں جاگزیں

پاتے ہیں وہ فقیر ہی عزّت کبھی کبھی

 

کثرت سے اُن کی ذات پہ پڑھتے رہو درود

ملتی ہے یُوں بھی دید کی دولت کبھی کبھی

 

دوزخ سے بچ گیا ہے یہودی بھی وہ شہا!

کرتا رہا جو آپ کی خدمت کبھی کبھی

 

گاہے بگاہے ملتے ہیں بطحا کے زائرین

ملتی ہے میرے دل کو یُوں راحت کبھی کبھی

 

ابنِ بتُول سبطِ نبی حضرتِ حسین

کرتے ہیں جو سِناں پہ تلاوت کبھی کبھی

 

ایماں کے دعوے دار ہیں جو بے ادب بھی ہیں

ہوتی ہے اُن کو دیکھ کے حیرت کبھی کبھی

 

میرے کریم کا درِ عالی ہے وہ جلیل

بدلی ہے کافروں کی بھی حالت کبھی کبھی

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔