دیکھ یہ رونق ِدنیا جو خَلا جیسی ہے
اپنی تنہائی کم و بیش خُدا جیسی ہے
دو پللک بِیچ بدل جاتا ہے منظر کا فسُوں
تیری دنیا بھی مری خواب سَرا جیسی ہے
ہر کسی پر نہیں کُھلتا تیرے دیوانے کا شعر
اِس کی بندش بھی ترے بند ِقبا جیسی ہے
آئینہ خانہء حیرت میرا مسکن ہے سو تُو
اپنی صورت پہ مری شکل بَنا، جیسی ہے
زِندگی مُفت ملی ہے تو شکایت کیسی
جب تلک سانس چلے، کام چلا جیسی ہے
گھر تو پِھر گھر ہے غریب الوطنی میں ضیغم
پیڑ کی چھاؤں مجھے ماں کی دُعا جیسی ہے