ذرا سا بچ کے چلو کاٹتا ہے، کُتّا ہے
اور عام سا بھی نہیں، باولا ہے، کُتّا ہے
یہ اپنے جسم کو پہلے بھنبھوڑ لیتا ہے
پھر اپنے زخم کو ہی چاٹتا ہے کُتّا ہے
جو مسجدوں سے نمازی نکل کے آتے ہیں
یہ ان پہ بار بار بھونکتا ہے، کُتّا ہے
کبھی نہ سیدھی ہوئی دُم، تو یہ کہاں ہو گا؟
ہمیں تو اچھی طرح سے پتہ ہے، کُتّا ہے
ہمارے سامنے دشمن کھڑا ہے صفدر صف
ہے روپ بھیڑ کا، پر بھیڑیا ہے ، کُتّا ہے