اردوئے معلیٰ

راحتِ جاں کہاں سے ملتی ہے

اسی جانِ جہاں سے ملتی ہے

 

جو بھی نعمت ہے دو جہانوں کی

ایک ہی آستاں سے ملتی ہے

 

وہ سبھی کے نبی ہیں اس کی سند

ہر زمان و مکاں سے ملتی ہے

 

سبز گنبد کی رفعتیں اللہ

ایک حد لامکاں سے ملتی ہے

 

اب ہمارے چمن میں ہے وہ بہار

جس کی صورت خزاں سے ملتی ہے

 

جبکہ ہر خشک و تر کو شادابی

ترے ابرِ رواں سے ملتی ہے

 

میرے دل میں حضور بستے ہیں

یہ زمیں آسماں سے ملتی ہے

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے

اشتہارات

لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔

حالیہ اشاعتیں

اشتہارات

اشتہارات