اردوئے معلیٰ

راکھ دعووں کی کہیں ، اور کہیں وعدوں کی

آندھیاں خاک اڑاتی ہیں تری یادوں کی

 

ائے شبستانِ محبت کی مہکتی کلیو،

کچھ خبر بھی ہے تمہیں خانماں بربادوں کی

 

نوچ ڈالی گئی اوراق سے تحریرِ وفا

چپ کرا دی گئی آواز سخن زادوں کی

 

دشت کر ڈالے گئے دل کے محلات سبھی

اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی بنیادوں کی

 

عہدِ بدذوق کو بد کار ہے ہر اک شیریں

واجب القتل ہے اب ذات ہی فرہادوں کی

 

سخت جاں عشق کہ قائم ہے جنوں پہ اپنے

حالتیں غیر ہوئیں ٹوٹ کے افتادوں کی

 

شہرِ بے چشم میں انصاف ہوا ہے ناصر

انگلیاں کٹ گئیں تحریر کے شہزادوں کی

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ