ربابِ دل کے سبھی تار گنگنا اٹھے
محبتوں کے دیے دل میں جگمگا اٹھے
بس ایک پل کو وہ جلوہ مجھے دکھائی دیا
درونِ قلب ستارے سے ٹمٹما اٹھے
کھڑا ہوں چشم بہ کف منتظر مدینے میں
نہ جانے کب وہ حسیں زلف لہلہا اٹھے
ہزار زاویے قرطاس پر نمایاں ہوئے
حروفِ نعتِ نبی اس پہ جھلملا اٹھے
تمہارے نعلِ مقدس کے تذکرے سن کر
شگوفے باغِ عقیدت کے لہلہا اٹھے
بچانے دینِ پیمبر کی شان و شوکت کو
حسین ابنِ علی سوئے کربلا اٹھے
لحد میں آئیں جو منکر نکیر منظرؔ کی
درود پڑھتا ہوا بندہ یہ ترا اٹھے