اردوئے معلیٰ

رودادِ سفر جس کو سنائی ترے در کی

ہر ایک نے چاہی ہے رسائی ترے در کی

 

آنکھوں میں بسایا ہے تصور کا سلیقہ

پلکوں پہ کبھی خاک سجائی ترے در کی

 

کمخواب کی، اطلس کی نہ مخمل کی طلب ہے

اے کاش ملے مجھ کو چٹائی ترے در کی

 

جاروب کشی میرا مقدر ہو وہاں پر

کرتا رہوں دن رات صفائی ترے در کی

 

دربان ترے در کے بشر ہوں کہ ملائک

کرتے ہیں سبھی مدح سرائی ترے در کی

 

اعمال مرے کچھ نہیں ، اِک تیری محبت

حاصل ہے، ذریعہ ہے، کمائی ترے در کی

 

اِک بار گیا تھا ترے دربار میں اشعرؔ

تقدیر نے بخشی تھی گدائی ترے در کی

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔