روشنی لفظ کی تا حدِ نہاں کھُلتی ہے
اُن کی مدحت جو پسِ حرف و بیاں کھُلتی ہے
ایک حیرت ہے جو ’’ اَوادنیٰ ‘‘ سے آگے ہے عیاں
اِک حقیقت ہے جو مابعدِ گماں کھُلتی ہے
ناز فرمائیں، چلے آئیں وہ جانِ عالم
خواہشِ دید کراں تا بہ کراں کھُلتی ہے
سوچتا ہُوں اُسے اظہار میں لاؤں کیسے
ایک صورت جو نہاں ہو کے عیاں کھُلتی ہے
آنکھ کا تذکرہ موقوف ہے شہرِ دل میں
خواب کے پردے پہ اِک دیدِ رواں کھُلتی ہے
آخری نعت کی مُہلت کی سفارش کر دیں
فردِ عصیاں مری اے شاہِ زماں کھُلتی ہے
جس کے ہر کوچے میں کھِلتے ہیں اِرَم کے منظر
تیری دہلیز سے وہ ارضِ جناں کھُلتی ہے
قابَ قوسین کی تلمیح پہ حیرت ساکت
ناوکِ شوق سے پہلے ہی کماں کھُلتی ہے
ایک تدبیر سے ممکن نہیں اظہارِ دروں
پُوری ہستی مری توصیف بہ جاں کھُلتی ہے
اگلے لمحے کو ہو مقصودؔ سوئے خیر رواں
تیری قسمت جو پئے شہرِ اماں کھُلتی ہے