اردوئے معلیٰ

روشن ہُوا ہے دہر میں ایسا دیا حسین

جس کو بجھا سکی نہ مخالف ہوا حسین

 

خوشبو سے جس کی آج معطر گلی گلی

بستانِ مصطفٰے کا گلِ خوشنما حسین

 

نام و نشاں یزید کا دنیا سے مٹ گیا

اسمِ گرامی آپ کا زندہ رہا حسین

 

بہتا فرات آن کے قدموں میں آپ کے

ہاتھوں کو ایک بار جو دیتے اٹھا حسین

 

قرآن پڑھا جاتا رہا سو بسو مگر

نوکِ سناں کے اوج پہ تو نے پڑھا حسین

 

باطل کو اپنے نام سے جوڑا یزید نے

حق تو ہمیشہ تیری طرف ہی رہا حسین

 

سجدہ جلیل قابلِ تحسین وہ ہی ہے

کرب و بلا کی ریت پہ جو کر گیا حسین

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔