رُخِ انور کی جب آقا ! زیارت ہوتی جاتی ہے
تو فوراً اپنی آنکھوں کی طہارت ہوتی جاتی ہے
مرے آقا ! غموں کا ہیں مداوا آپ کی یادیں
’’ہجومِ رنج سے دل کو مسرت ہوتی جاتی ہے‘‘
کہ ایماں کی حلاوت ہے مرے آقا ! تری اُلفت
سو ہر لمحہ فزوں تر یہ محبت ہوتی جاتی ہے
زباں جب ورد کرتی ہے محمد یا محمد کا
دلِ مُضطر سنبھل جاتا ہے راحت ہوتی جاتی ہے
جو مخلوقِ خُدا کی خوب خدمت کرتے رہتے ہیں
تو فوراً ہی قبول اُن کی عبادت ہوتی جاتی ہے
وہ گھڑیاں یاد آتی ہیں،مواجہ سامنے تھا جب
اُنہی لمحوں سے بس آقا محبت ہوتی جاتی ہے
مدینے سے جدائی کے اذیت ناک لمحوں کو
میں لاتا ہوں تصور میں تو وحشت ہوتی جاتی ہے
نکل کر نارِ دوزخ سے وہی جنت کو جاتے ہیں
کہ جن جن کی مرے آقا شفاعت ہوتی جاتی ہے
سجا ہوتا ہے جس گھر میں درودِ پاک کا حلقہ
اُسی گھر پر مرے آقا کی رحمت ہوتی جاتی ہے
میں کرتا ہوں دُعا جب بھی درودِ پاک پڑھ پڑھ کر
تو لگتا ہے کہ فوراً ہی اجابت ہوتی جاتی ہے
ترے اسمِ مبارک کو وظیفہ کر لیا جب سے
زباں میں انگبیں جیسی حلاوت ہوتی جاتی ہے
رُخِ حیدر ؓ کو تکنا ہے عبادت اہلِ ایماں کی
تبھی صدیقِ اکبرؓ کی یہ عادت ہوتی جاتی ہے
حسین ابنِ علی جیسا جلیل القدر قاری ہو
تو پھر نوکِ سِناں پر بھی تلاوت ہوتی جاتی ہے