رہنما جو شہِ کونین کی سیرت ہو جائے
آپ کے نام ہر اک منزلِ عظمت ہو جائے
تیرے چہرے کو نظر دیکھے یہ ممکن ہے کہاں
ہے بڑی بات جو قدموں کی زیارت ہو جائے
تیرے آنے کی خبر پائے جو دیوانہ ترا
بے نشاں دم میں ابھی عالمِ وحشت ہو جائے
ایک قطرہ ترے الطاف کا پانی جو ملے
دشت سرسبز مرا باغ کی صورت ہو جائے
تیری خوشبو سے مہک جائے جو رستہ اک بار
دیکھتے دیکھتے اُس راہ کی شہرت ہو جائے
عشق کی شاخ پہ روشن ہے تمنا کا گلاب
دل جسے کہتے ہیں تیرا درِ دولت ہو جائے
جس قدر اپنے مقدر پہ کرے ناز ، بجا
مہرباں جس پہ تری بزمِ اشارت ہو جائے
لمس اے کاش ترے دستِ کرم کا ہو عطا
کاش پیدا مری رگ رگ میں حرارت ہو جائے
نسل در نسل مرے بچے سنبھالیں اس کو
جذبۂ عشق ترا ، میری وراثت ہو جائے
مسکرا دے جو مرے حال پہ تو میرے کریم
ایک لمحے میں مری غم سے برأت ہو جائے
نعت کو کرکے وسیلہ یہ دعا مانگ مجیبؔ
خدمتِ مدحتِ سرکار ودیعت ہو جائے