زبانِ ناقص سے کیا بیاں ہو خدائے برتر کمال تیرا
نگاہ و دل میں سما رہا ہے جلال تیرا جمال تیرا
–
ترے ہی ایک لفظ کُن کے صدقے میں بن گئی کائنات ساری
ازل سے یوم النشور کی شام تک ہے تیرا ہی فیض جاری
حسین تر ہے ، عظیم تر ہے ، یہ رتبۂ لازوال تیرا
–
حیات تجھ سے ، ممات تجھ سے ، حقیقتِ کائنات تجھ سے
تمام سمتوں کی بات تجھ سے ، فسانۂ شش جہات تجھ سے
حکومتِ غرب و شرق تیری ، جنوب تیرا ، شمال تیرا
–
جو کام جیسے بھی ہو رہا تھا ، ہے اب بھی ویسے شروع ہوتا
مقررہ وقت و سمت سے ہی ہے روز سورج طلوع ہوتا
زمانے والوں سے کہہ دے کوئی کہ دیکھ لیں اعتدال تیرا
–
پیمبرِ وقت کی بھی نظریں ٹھہر نہ پائیں رُخِ حسیں پر
بس اک جھلک ہی کے بعد ہو کے موسیٰ گرے زمیں پر
کہاں کسی میں ہے تاب دیکھے جو جلوۂ ذوالجلال تیرا
–
نوازشِ صبح و شام تجھ سے ، طلسمِ لیل و نہار تجھ سے
ہر عہد کا اعتبار تجھ سے ، ہے گردشِ روزگار تجھ سے
زمانہ تیرا ، صدی بھی تیری ، فسانۂ ماہ و سال تیرا
–
مری تو اپنی رضا نہیں ہے کچھ ، ہے تو ہی مری رضا کا مالک
ہر ابتدا انتہا کا مالک ، ہے تو ہی روزِ جزا کا مالک
بروزِ محشر ہو کاش بہتر ، جواب میرا سوال تیرا
–
ترا ہی ذکرِ بلند کرنا جہاں میں شاعر کی آبرو ہے
یہی تو انورؔ کی ہے تمنا ، یہی تو انورؔ کی آرزو ہے
تو اس سے پہلے ہی موت دیدے ، نہ دل میں ہو جب خیال تیرا