اردوئے معلیٰ

زباں نے جب بھی شہِ بحر و بر کا نام لیا

تو روئے حرف مرا روشنی نے تھام لیا

 

کروں میں ان کی کریمی پہ دو جہاں نثار

عدو سے بھی نہ کبھی جس نے انتقام لیا

 

دیارِ طیبہ میں گوشہ نشینی جس کو ملی

اسی کے قدموں نے روئے زمیں کو تھام لیا

 

کنارِ چشم اک اشکوں کا چشمہ پھوٹ پڑا

درِ رسول کا جب آخری سلام لیا

 

وہ کامیاب ہوا زندگی کی راہوں میں

عصائے عشقِ محمد کو جس نے تھام لیا

 

نکما شخص تھا مظہرؔ عمل سے خالی تھا

ثنائے آلِ محمد سے اس نے کام لیا

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے

اشتہارات

لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔

حالیہ اشاعتیں

اشتہارات

اشتہارات