اردوئے معلیٰ

زمیں کا یہ مقدر ہے کہ خضرٰی کے مکیں تُم ہو

شبِ اسرٰی دنٰی کے بھی ہوئے مسند نشیں تُم ہو

 

گناہوں کو جو تکتا ہوں ، لرز جاتا ہے دل میرا

مگر آقا ! میں شاداں ہوں ، شفیع المذنبیں تم ہو

 

شبِ اسرٰی وہ اقصٰی میں نبی و مرسلیں سارے

کھڑے تھے منتظر جس کے وہ ختم المرسلیں تم ہو

 

نہیں اکنافِ عالَم میں کوئی شہکار تُم جیسا

’’مشیت جس پہ نازاں ہے وہ فخر المرسلیں تُم ہو‘‘

 

کہ جس کے رُخ کے پَرتَو سے وہ ماہ و مہر و انجم بھی

ضیا لیتے ہیں سب کے سب وہی روشن جبیں تُم ہو

 

صحیفوں میں خدا جس کی بہت قسمیں اُٹھاتا ہے

حبیبِ کبریا جو ہے فقط وہ نازنیں تُم ہو

 

نہ تُم سا ہو سکا کوئی ، نہ ہوگا بعد میں کوئی

مرے رب نے جسے یکتا بنایا ہے ، حَسیں تُم ہو

 

تمہاری عظمتیں مانی گئیں اعلان سے پہلے

یہ سب تسلیم کرتے تھے کہ صادق ہو امیں تُم ہو

 

وہ قُرآں گر پہاڑوں پر اُترتا تو لرز جاتے

اُٹھا جس سے وحی کا بار ، تُم ، صد آفریں تُم ہو

 

مرے دل میں خُدا ہے یا تمہاری یاد رہتی ہے

خُدا کا ہے کرم مجھ پر کہ میرے دلنشیں تُم ہو

 

جلیلِ ناتواں پر بھی مرے آقا نظر کیجے

کہ ہم جیسے نکموں کے مسیحا بالیقیں تُم ہو

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔