زندگی جس کی بھی ہوتی ہے بسر نعتوں میں
لطف ملتا ہے اسے شام و سحر نعتوں میں
اپنے لفظوں میں کہاں تاب وتواں تھی اتنی
ان کی توصیف سے ہیں لعل و گہر نعتوں میں
ان کی یادوں سے بسا لیتا ہوں دل کی بستی
کھلتے جاتے ہیں جو توفیق کے در نعتوں میں
نعت گوئی ہے فقط ان کی عطا پر موقوف
کام آتے نہیں یاں علم و ہنر نعتوں میں
مزرعِ عشق پہ اُگتی ہے جو فصلِ الفت
حسنِ توصیف کے بٹتے ہیں ثمر نعتوں میں
دشتِ فرقت میں ندامت کی گھٹا برسے تو
لہلہائیں گے نئے برگ و شجر نعتوں میں
مل ہی جائے گی کبھی ان کی لقا کی منزل
رہیے صلوات بہ لب محوِ سفر نعتوں میں
دل میں روشن ہو اگر عشقِ شہِ دیں کا چراغ
خود بخود نُور کا بڑھتا ہے اثر نعتوں میں
جادۂ نعت ہے نوری یہ نہیں راہِ غزل
رکھیے قرآن کو بس پیشِ نظر نعتوں میں