زہر کی ہے یہ لہو میں کہ دوا کی تیزی
دل کی رفتار میں آئی ہے بلا کی تیزی
اُس کے چھونے سے مرے زخم ہوئے رشکِ گلاب
بس گئی خون میں اُس رنگِ حنا کی تیزی
بھاوٴ بڑھتے ہی گئے عشقِ طلب گار کے اور
راس آئی اُسے بازارِ وفا کی تیزی
پھر کسی رخصتِ تازہ کی خبر دیتی ہے
سرد موسم کے تناظر میں ہوا کی تیزی
صرف ہونٹوں سے جو نکلے تو صدا ہے رسمی
دل سے نکلے تو ہے برّاق دعا کی تیزی
شہر عادی ہے یہ سرگوشیاں سننے کا ظہیرؔ
کہیں بھونچال نہ بن جائے صدا کی تیزی