سبز گنبد کا وہ جمال کہاں
میں کہاں شہرِ بے مثال کہاں
یہ قلم اور یہ خیال کہاں
ان کی صورت کے خدوخال کہاں
آپ جیسا کوئی زمانے میں
خوش بیان اور خوش خصال کہاں
ان کے ہاتھوں کا آئینہ ایام
ان سے چھپتا ہے میرا حال کہاں
دل کی مسجد میں دوں اذانِ عشق
میں کہاں حضرت بلال کہاں
زخمِ ہجرِ مدینہ ہے صاحب
اس کی قسمت میں اندمال کہاں
دل مدینے نگر کا باسی ہے
اس میں آلام کی مجال کہاں
مجھ کو بن مانگے مل رہی ہے بھیک
ہاتھ میں کاسۂ سوال کہاں
لے کے دنیا کی سمت مجھ کو چلی
پھر میری فکرِ پائمال کہاں
بابِ جبرئیل سامنے تو ہے
رہ گئی ہے شبِ وصال کہاں
میری فکرِ سخن کہاں مظہرؔ
احمدِ مجتبیٰ کی آل کہاں