سخن کو نعت کے لمعات سے روشن کئے رکھا
شہِ ابرار کے نغمات سے روشن کئے رکھا
سرِ فہرست لکھا والضحی والشمس نُور اللہ
اور اپنا نطق ان آیات سے روشن کئے رکھا
کیا ہر بات کا آغاز ان کے نامِ عالی سے
اور اپنی بات کو اس بات سے روشن کئے رکھا
وہ سب لمحے جو شہرِ نور کی یادوں میں گزرے ہیں
ثنا کو ان حسیں ساعات سے روشن کئے رکھا
ضیائے نعت گوئی جو رضا کے در سے پائی ہے
سخن کو اپنے اس خیرات سے روشن کئے رکھا
ترے لمسِ قدم سے پائی جن ذروں نے تابانی
فلک نے خود کو ان ذرات سے روشن کیے رکھا
ہمیں امید ہے منظرؔ لحد میں روشنی ہوگی
کہ دل کو الفتِ سادات سے روشن کیے رکھا