اردوئے معلیٰ

سخن کے خار زار کو حسِیں گُلاب مل گئے

درِ رسول سے حروفِ مستطاب مل گئے

 

مَیں پہلی بار کے سفر میں، گو رہینِ عرض تھا

بُلاوا آگیا تو اذن بے حساب مل گئے

 

شفیعِ مذنبیں نے مجھ پہ کیا عجب کرم کیا

گناہ ساتھ لایا تھا مگر ثواب مل گئے

 

سوادِ شامِ کرب میں طمانیت کا دن کھِلا

ازل کے ہجر زاد کو عطا کے خواب مل گئے

 

کہاں مجال تھی سخن کو مدحِ حُسنِ تام کی

برائے شعرِ نعت، حرف لاجواب مل گئے

 

اُٹھا کے سنگریزے لایا تھا مَیں دشتِ ناز سے

گماں نہیں یقین ہے کہ ماہتاب مل گئے

 

میانِ حشر منفعل تھے اولیں سوال پر

حضور آگئے تو سب کے سب جواب مل گئے

 

حضور، فاطمہ، علی، حسن، حُسین پنج تن

نسَب کو ناز ہے کہ کیسے انتساب مل گئے

 

یہاں وہاں وہ ماورائے خوف و حزن ہی رہے

جنہیں غلامیٔ رسول کے ذہاب مل گئے

 

گلے میں طوق ہی رہا ہے عجز کا، نیاز کا

کتابِ زندگی کو کیا حَسین باب مل گئے

 

تڑپ کے ساری حاجتوں نے پڑھ لیا درود جب

دُعا کے حرفِ عجز کو عطا مآب مل گئے

 

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے

اشتہارات

لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔

حالیہ اشاعتیں

اشتہارات

اشتہارات