سخن کے ظلمت کدوں کو خورشید کر رہا ہُوں
مَیں نعت سے روشنی کی تمہید کر رہا ہُوں
نہیں ہے محبوب اور محب میں مغایرت کچھ
بہ حرفِ مدحت خُدا کی تمجید کر رہا ہوں
بچھے ہوئے ہیں قلم کے آگے سخن کے امکاں
بجز ثنا کے ، مَیں سب کی تردید کر رہا ہُوں
جو تیرے اسمِ کرم کی لذت سے بے خبر ہیں
مَیں ایسی سانسوں کی تن سے تفرید کر رہا ہوں
مَیں جانتا ہُوں، نہیں ہیں پھر بھی یہ تیرے لائق
اگرچہ حرف و بیاں کی تجدید کر رہا ہُوں
وجود پُورے میں کھِل رہے ہیں ثنا کے موسم
سکوتِ شب میں کچھ ایسی تغرید کر رہا ہُوں
بغیر مدحت کے مجھ سے منسوب کچھ نہیں ہے
ثنا کے حرفِ عطا کی تجرید کر رہا ہُوں