سخن کے پیڑ پہ مدحت کا نور آیا ہے
حرائے دل میں خیالِ حضور آیا ہے
مزاجِ حضرتِ حسان بھا گیا اس کو
قلم کی جیب میں جب سے شعور آیا ہے
ہمارے گھر کے ازل سے بجھے چراغوں میں
حضورِ والا کے آنے سے نور آیا ہے
سکون چاہیے تھا دل کو اور نظر کو چین
بس ایک نعت کہی تو سرور آیا ہے
نبی کا عشق پلایا تھا ماں نے گھٹی میں
خیال پڑھتا ازل سے زبور آیا ہے
جگر پہ زخم سجائے ہوئے ترے در پر
مریضِ ہجر شکستوں سے چور آیا ہے
اسے بھی تھوڑی سی قدموں میں اب جگہ دیجے
یہ کر کے درد کا دریا عبور آیا ہے
خدائے عزق اسے عاجزی کی دولت دے
سرِ خیال میں میرے غرور آیا ہے
قدم قدم پہ مدینے کی خاک پرمظہرؔ
ہمارے زیرِ قدم کوہ و طور آیا ہے