سر تا بہ قدم ہیں نور فقط دیدار کی حرمت کیا کہنے
جب زُلف گھنیری چھاؤں ہے رخسار کی رنگت کیا کہنے
بکتے ہوں جہاں بے دام سبھی سلطان و گدا، سر مستی میں
اس کون و مکاں کے سلطاں کے بازار کی ثروت کیا کہنے
یہ سچ ہے کہ روزے داروں کو اللہ جزا خود ہی دے گا
پر شہرِ نبی میں روزے کے افطار کی لذّت کیا کہنے
جب چاند بھی تھک کر سو جائے اور ہجر بہے اِن آنکھوں سے
اس جذب میں نامِ نامی کی تکرار کی شدت کیا کہنے
سینتیس برس ہونے کو ہیں چشمان ہیں میری دید بہ کف
جس دم وہ کرم فرمائیں گے بیمار کی حالت کیا کہنے
جس جا ہے نظر اس جا ہے قدم، یہ فیض ہے اُن سے نسبت کا
اُن کے برّاق و رف رف کی رفتار کی شدت کیا کہنے
گر بہرِ کرم منظر میرے گھر شاہِ مدینہ آ جائیں
کیف و مستی میں گھر کے در و دیوار کی رقت کیا کہنے