سفر حضر کی علامتیں ہیں، یا استعارہ ہے قافلوں کا
یہ شاعری تو نہیں ہماری، یہ روزنامہ ہے ہجرتوں کا
یہ رُوپ سورج کی دھوپ جیسا، یہ رنگ پھولوں کی آنچ والا
یہ سارے منظر ہیں بس اضافی، یہ سب تماشہ ہے زاویوں کا
ہر ایک اپنی انا کو تانے دُکھوں کی بارش میں چل رہا ہے
دیارِ ہجرت کے راستوں پر عجیب موسم ہے چھتریوں کا
ہر اک شباہت میں اپنا چہرہ دکھائی دیتا ہے عکس درعکس
خود آشنائی کی حد سے آگے عجب علاقہ ہے آئنوں کا
بس اب ضرورت کی وادیوں میں قیام جیسی مسافرت ہے
چلے تھے ہم جب ظہیرؔ گھر سے تو اک ارادہ تھا پربتوں کا