سفید جسم مہکتی ہواؤں جیسا ہے
وہ چہرہ زرد ہے پھر بھی شعاعوں جیسا ہے
نہ جانے کون سا جھونکا کدھر کو لے جائے
مرا سفر تو بھٹکتی صداؤں جیسا ہے
تھا ایک میرا بھی سورج ، سو وہ تو ڈوب گیا
یہ جسم اب تو اندھیری گپھاؤں جیسا ہے
میں اپنے آپ سے سہما ہوا ہوں ڈرتا ہوں
ہے کون جو میرے اندر بلاؤں جیسا ہے
نہ دوستی ، نہ دلیری ، نہ حسنِ دل آرام
تمہارے شہر میں کیا میرے گاؤں جیسا ہے
ہے یوں تو ہر طرح انمول اپنا یار ، مگر
بس عادتاََ ہی ذرا بے وفاؤں جیسا ہے
میں ہوں صدف کی طرح ایک بوند کا طالب
ترا کرم تو برستی گھٹاؤں جیسا ہے
لڑی ہے آنکھ تو اُس سے کہ افضل احسنؔ جو
ہر ایک بات میں بالکل خداؤں جیسا ہے