سچ بول کے ستم ہے خطا وار ہو گیا
میں نیک کام کر کے گنہگار ہو گیا
کل خوب قتلِ عام ہوا اُن کی بزم میں
اُٹھنا نگاہِ ناز کا تلوار ہو گیا
جلوے کے سامنے تمہیں اپنی خبر نہ تھی
موسیٰؑ یہ کیسے مان لوں دیدار ہو گیا
شرما کے منہ چھپانے لگا بادلوں میں چاند
کل شب جو بے نقاب رُخِ یار ہو گیا
اے ہم نشیں یہ غم ہے کہ فصلِ بہار میں
بجلی گری جب آشیاں تیار ہو گیا
جب یہ سنا وہ آج عیادت کو آئیں گے
میں اور جان بُوجھ کے بیمار ہو گیا
پُرنمؔ وہ آکے میرے جنازے پہ رو دئیے
مرنے کے بعد مجھ سے انہیں پیار ہو گیا