اردوئے معلیٰ

سید فخر الدین بلے ، پیدا کہاںں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
ولادت:۔6۔اپریل1930۔ہاپوڑ،(میرٹھ) وفات:۔28۔جنوری2004۔ملتان
——
سید فخر الدین بلے نوراللہ مرقدہ ایسی قدآور اور تہہ دار شخصیت تھے کہ اُس کی ایک ایک پرت کو کھولنے کے لئے ایک علیحدہ مضمون چاہئے۔ نیز اس کے لئے ایسی نظرکی بھی ضرورت ہے جس میں ان تہوں کے اندر جھانکنے کی صلاحیت ہو۔ مقصد اکابر شعراءاور ادباءنے ان کی بابت جن آرا کا اظہار کیا ہے، ان پر اضافہ کرنا بھی ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ بایں ہمہ ایک قاری کی حیثیت سے بھی اپنی رائے کے اظہار کی ضرورت محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔علم وادب،فنون، ثقافت،صحافت،تصوف،اور تحقیق ان کی آماجگاہ رہے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک ماہر شمشیرزن چومکھی لڑ رہاہے۔ تن تنہا انہوں نے اتنے میدان سرکئے ہیں، جو بیشتر ادارے بھی نہیں کرپاتے۔ ڈاکٹر عاصی کرنالی نے کیا خوب کہا ہے کہ”اس شخص کے زرخیز دماغ میں ایک کمپیوٹرنصب ہے، جس میں حکمت الہیٰ نے ان گنت اور بے حد وشمار علوم و فنون فیڈ کردئیے ہیں ، جن کاظہور حسب ِ ضرورت ہوتا رہتا ہے “۔
بابائے اردو مولوی عبدالحق، فراق گھورکھپوری، ڈاکٹر وزیرآغا، جوش ملیح آبادی، میرزاادیب، جگن ناتھ آزاد، ڈاکٹر انورسدید اور دیگر متعدداکابرین نے وقعتافوقتاً ان کے فن اور شخصیت پر جو تبصرے کئے ہیں، وہ کسی بھی قلم کارکیلئے مایہ ء ناز سرمایہ کی حیثیت رکھتے ہیں، جن کے تناظر میں وہ بجاطورسے ان پر ناز کرسکتی ہے کہ ایسی چنگاری بھی یارب اپنی خاکستر میں تھی۔
سید فخر الدین بلے ایک فعال ادیب اور شاعرہی نہیں تھے بلکہ ایک عامل صحافی، میڈیاکنسلٹنٹ اور تحقیق کاروں، فن کاروں، شاعروں اور ادیبوں کیلئے ”قافلہ“ ۔”پنجنداکادمی“ اور ”معین اکادمی“ جیسے اداروں کے بانی مبانی ہونے کا شرف بھی انہیں حاصل تھا۔ ملتان آرٹس کونسل کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے انہوں نے جوپچیس روزہ جشن تمثیل کا اہتمام کیا تھا، اس نے تو ادب اور آرٹس کی دنیا میں سنگ میل کی حیثیت اختیار کرلی ہے۔ اس جشن کے کامیاب اختتام پر اہل ذوق نے انہیں ”محسن فن“ اور ”مین آف دی اسٹیج“ کے خطابات سے نوازا۔
ان کی نثری مطبوعات وتالیفات کی تعداد ڈیڑھ سو سے متجاوز ہے۔ مگر یہاں میں محض ان کی شاعری پر بات کروں گا۔ جس میں تغزل کے رچاو کے پہلو بہ پہلو فکر کی بلندی، ژرف نگاہی اور وژن کی ہمہ گیری بھی نظر آتی ہے۔ انہوں نے جملہ اصناف سخن میں طبع آزمائی کی اور ہر صنف میں اپنی انفرادیت برقرار رکھی ہے۔ اس قول کی تائید میں ان کے چند اشعار نذرقارئین ہیں۔
——
یہ بھی پڑھیں : سید فخرالدین بلے , ایک منفرد تخلیقی شخصیت
——
ہرچند سید فخر الدین بلے نے جملہ اصناف میں طبع آزمائی کی ہے مگر انکی ترجیحات میں نظم سرفہرست رہی ہے۔ اس لئے سب سے پہلے ان کی نظموں سے چند منتخب اشعار پیش کرنا برمحل ہوگا۔ ان میں فکری اور علمی بلوغ کے ساتھ ایک حساس دل کی دھڑکن بھی سنائی دیتی ہے۔
مسجداقصیٰ میں آتشزدگی کے حوالے سے کہی ہوئی نظم”آگ“ کے دو شعردیکھئے
——
قرآں سے دھواں سا اٹھتا ہے اور عرشِ بریں تھراتا ہے
اللہ وفورِ غیرت سے نبیوں کو پسینہ آتا ہے
وہ تین سو تیرہ تھے جن سے، تقدیرِ امم تھراتی تھی
ہم پون ارب ہیں جن کا سر، ہر گام پہ جھکتا جاتا ہے
——
دوسرے شعرمیں ملت کے “آج ” اور”کل” کا تقابلی جائزہ اہل دل کیلئے لمحہ فکرفراہم کرتا ہے۔
نظم “باران کرم” کوئٹہ کی برف باری پر ایک شاعر کا تخیل قابل ِتحسین ہے۔
——
اس برف سے رعنائی وشوخئی گؑلِ تر
یہ برف ہےیا پیشانیءبولان کا جھومر
یہ برف بلوچوں کی دعاوں کا ثمر ہے
یہ برف نہیں فصلِ بہاراں کی خبر ہے
اس برف سے مہوش تری تصویر بناﺅں
بت ساز بنوں اور صنم دل میں بٹھاوں
ڈرتا ہوں مگر برف پگھل جائے گی اکِ دن
انفاس کی حدت سے یہ گل جائے گی اکِ دن
——
ہنگامِ محشر کے عنوان سے کوئٹہ میں برف باری کا دوسرا رخ دیکھئے۔
——
راہوں میں رکاوٹ ہے ، ہر اِک گام پہ قدغن
یہ برف ہے یا زیست کے آثار کا مدفن
محروم ِ تپ ِ زیست کا ٹھٹھرا ہوا تن ہے
ہے برف پہاڑوں پہ کہ کوڑھی کا بدن ہے
باغات خزاں دیدہ ہیں، پامال چمن ہے
یہ برف ہے یا مردہ پہاڑوں کا کفن ہے
——
ہائیکوکا ایک نمونہ::۔۔
——
اس نے پوچھا علوم کتنے ہیں
میں نے بھی اس سے یہ سوال کیا
آسماں پر نجوم کتنے ہیں
——
سید فخر الدین بلے کے گیت کار چاؤ ایک قطعے میں ملاحظہ کیجئے۔
——
آئے جو سجن پاس تو آنچل مورا ڈھلکے
جائے جو سجن، نین کٹورا مورا چھلکے
میں پریم ِدوانی ہوں مری بات نہ پوچھو
ساجن کا تو میں نام بھی جپتی ہو سنبھل کے
——
سات صدیوں کے بعد قول ترانہ اور ”رنگ” بلے کا ایک اور بڑا کارنامہ ہے۔ “رنگ” کے دربند دیکھئے
——
سات زمینیں ، سات فلک ، ہیں سات دھنک کے رنگ
سات سروں کی سنگیتا ہے ، سرگرم ہفت آہنگ
سا۔ رے۔ گا۔ ما۔ پا۔ دھا۔ نی۔ دھا۔ پا۔ ما ۔ گا۔ نی۔ سا۔ رنگ
سات زمینیں ، سات فلک ، ہیں سات دھنک کے رنگ
سات سروں کی سنگیتا ہے ، سرگرم ہفت آہنگ
سکھیو ! آءو مل کر کھیلیں رنگ سجن کے سنگ
——
یہ بھی پڑھیں : کتاب کا مقدمہ ” ہم سید فخرالدین بلے کے قرض دار ہیں”۔
——
اب ذرا غزل کا آہنگ:۔
——
تغزل کا رچاو
ہیں مجھ کو پسند آپ کی بکھری ہوئی زلفیں
بکھری ہوئی زلفوں کو سنوارا نہ کریں آپ
کرکے نادم تمہیں ہم کو ہی ندامت ہوگی
یہ سمجھ کہ نہ کیا تم کو پشیماں ہم نے
——
فکرکی پرواز تو دیکھئے:۔
——
چمن میں فصلِ بہاراں سہی، خزاں نہ سہی
مگر حضور یہ موسم ضرور بدلے گا
——
ہم شب میں رند بن کے رہے ، دن میں متقی
دنیا میں اس چمن سے بڑی آبرو رہی
——
ٹپکتی بوندوں سے ڈرتا ہوں جب سے دیکھا ہے
نشان ڈال دیئے بارشوں نے پتھر میں
——
خود ارادی اور آزادی کی برکت دیکھئے
گھر کے آنگن میں نظر آتے ہیں اب چولہے کئی
——
جنت میں جانا کیسے گوارا کرے کوئی
رسوا وہاں سے ہوکے نکالے ہوئے ہیں ہم
——
مٹی اڑی تو اپنی حقیقت ہوئی عیاں
جھونکا ہوا کا میرا پتہ دے گیا مجھے
——
یہی ہے گردشِ لیلِ و نہار کی تعبیر
کسی کا وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا
——
ہے ردا پوشی مری دنیا دکھاوے کے لئے
ورنہ خلوت میں بدلنے کو کئی چولے ہیں
——
سر اٹھا کے زمیں پہ چلتا ہوں
سر چھپانے کو گھر نہیں نہ سہی
پیڑ پودوں کی کچھ کمی تو نہیں
ایک سوکھا شجر نہیں ، نہ سہی
——
قانون قدرت ہے کہ چاروں طرف ہاتھ پیر مارنے والا شخص کسی ایک شعبہ میں کسی مقام تک نہیں پہنچ پاتا۔ انگریزی کا مشہور مقولہ ہےjack of a11, master of none مبصرین وناقدین کی متفقہ رائے ہے کہ اگر وہ کسی ایک صنف ادب کے ہو رہتے تو اچھے اچھوں کے چراغ گل ہو جاتے۔ بلے صاحب نے بھی اپنی صلاحیتوں کو متعدد حصوں میں تقسیم کردیا تھا۔البتہ جو کچھ اور جتنا کچھ چھوڑ گئے ہیں، وہ انہیں تاریخ میں زندہ رکھنے کیلئے کافی ہے۔ میرٹھ میں اپریل 1930 کو آنکھیں کھولیں اور جنوری 2004 میں ملتان میں موندلیں۔ اور بہاولپور میں آسودہ خاک ہوئے۔ ہرچند کہ مرحوم طبعی عمر کو پہنچ چکے تھے مگر پھر بھی یہی کہنے کو جی چاہتا ہے کہ کیا تیرا بگڑتا جو نہ مرتا کوئی دن اور۔
ہم سیدفخرالدین بلے کی شخصیت اور شاعری کےقرض دارہیں،وفا یزدان منش ، پروفیسرتہران یونیورسٹی ،ایران تہران یونیورسٹی میں شعبہ ء اردو سے وابستہ نامور شاعرہ، ادیبہ اور ادب نواز شخصیت وفا یزدان منش بھی سید فخر الدین بلے کی قدآور شخصیت اور ان کی خوبصورت شاعری اور نثرنگاری کےگن گاتی نظر آتی ہیں ۔ سید فخر الدین بَلّے۔ ایک آدرش ۔ ایک انجمن ۔ ایک بھرپور کتاب چند برس پہلے منظرعام پر آئی ہے جو اولڈ بوائز ایسو سی ایشن مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کی کاوشوں کاثمر ہے۔ یہ تالیف پاک و ہند کے نامور ادیبوں ،شاعروں ، نقادوں اور دانشوروں کی نگارشات یا ان کے مقالات کے اقتباسات سے آراستہ ہے ۔بابائے اردومولوی عبدالحق ،ڈاکٹرجگن ناتھ آزاد، گوپی چند نارنگ،آل احمدسرور،فراق گورکھپوری،کنورمہندرسنگھ بیدی سحر،اشفاق احمد،بانوقدسیہ،احمدندیم قاسمی، ڈاکٹروزیرآغا،انتظار حسین ،فیض احمدفیض،محسن بھوپالی،افتخارعارف،رئیس امروہوی،جون ایلیا،جگر مراد آبادی، مجروح سلطان پوری،ڈاکٹرفوق کریمی،کمال احمدرضوی،پروفیسرمنظرایوبی،پروفیسرجاذب قریشی،اصغرندیم سید،سیدحامدسابق وائس چانسلر مسلم یونیورسٹی علی گڑھ،ڈاکٹرخواجہ زکریا،ڈاکٹر انورسدید،اسرارزیدی،پروفیسرخالدپرویز ،جاوید احمدقریشی،غزالیءزماں رازیءدوراں علامہ سیداحمدسعیدکاظمی،مولانا ابن ِ حیدر،لکھنو،خواجہ نصیرالدین نصیرآف گولڑہ شریف،علامہ طالب جوہری،علامہ غلام شبیربخاری،طفیل ہوشیارپوری،میرزاادیب،ظفرعلی راجا،پروفیسرافتخاراجمل شاہین،سیدتابش الوری،اورشبنم رومانی نےبَلّے صاحب کی شخصیت اورشاعری کواپنےاپنےاندازسے دیکھا اور ان کی مختلف جہتوں کواپنے اپنے اندازمیں بڑی خوبصورتی کےساتھ اجاگر کیاہے ۔اس کتاب کا دیباچہ پروفیسر وفا یزدان منش یونیورسٹی آف تہران نے لکھا ہے ۔اور خوب لکھا ہے ۔لکھاریوں کی تحریروں کاتجزیہ بھی کیا ہے اور لکھاہے کہ ہم سب اس قدآور علمی اور ادبی شخصیت سیدفخرالدین بلے کے مقروض ہیں ،بلکہ اپنے مقدمے کاعنوان ہی انہوں نے بنایا ہے “ہم سید فخرالدین بلے کے قرض دار ہیں”۔لکھتی ہیں سید فخرالدین بلے ایک ایسی شخصیت ہیں ،جوادبی دنیا میں جانی پہچانی ہی نہیں جاتی بلکہ علمی، ادبی،ثقافتی اور صحافتی حلقوں میں معروف اور مقبول بھی ہیں ۔ انہیں اپنی زندگی ہی میں بڑے بڑے ادیبوں اور شاعروں نے پہچان لیاتھا اور یہ جان لیاتھاکہ ان کے اندر معرفت اور علم کاایک جہان آبادہے۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق نے ان کے عہدجوانی ہی میں یہ کہہ دیاتھا کہ بلے صاحب کی نظم ہو یا نثر اس میں کوئی نقص نکالنا محال ہے۔آل احمد سرور نے انہیں بلند پایہ کلام کاخالق قراردیا۔ سید فخرالدین بلے ایک سو پچاس سے زیادہ مطبوعات تالیف کرچکے ہیں اوریہ سب ایسی کتابیں ،بروشرز، سووینئیرز،اور کتابچے طرح طرح کے موضوعات کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہیں ۔
——
یہ بھی پڑھیں : فخرِعلیگڑھ مسلم یونیورسٹی , سید فخرالدین بَلے علیگ
——
وہ لاہور،اسلام آباد،،کراچی،سرگودھا،بہاولپور، ملتان، اور علی گڑھ سمیت مختلف شہروں میں کئی رسائل اور جرائد کے ایڈیٹر رہ چکے ہیں اور چند رسالے خود بھی نکال چکے ہیں ، وسیع پیمانے پر مختلف نوعیت کے جرائد کی ادارت ان کی تخلیقی اور تحقیقی صلاحیتوں کی غمازی کرتی ہے۔دنیائے ادب میں یہ امر مسلمہ ہے کہ وہ لوگ جو صحافت میں سرگرم ہوتےہیں، ان کے مشاہدات و تجربات کا کینوس بھی بڑا وسیع اور وقیع ہوتاہے۔ اس تناظر میں آپ سید فخرالدین بلے کے صحافتی ،تصنیفی اور تالیفی کام کو دیکھیں تو علمی و ادبی رنگا رنگی ان کی تالیفات کی جان اور پہچان نظرآتی ہے۔ یہ تنوع ایسا ہے، جس نے ان کی شاعری اور نثرپاروں کی دلکشی بڑھا دی ہے ۔ وہ مذہبی میدان میں بھی لکھتےرہےہیں،۔”ولایت پناہ حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ و تعالیٰ وجہہ الکریم” اور ” فنون لطیفہ اور اسلام” ان کی دوایسی تحقیقی کتابیں ہیں، جن میں ان کاتبحر علمی بولتاہوا دکھائی دیتا ہے ۔یہی نہیں انہوں نے علمی ، ادبی ،ثفاقتی ، اورروحانی شعبوں میں جوکام کئے ،باکمال کئے اور ارباب عرفان و ادب کو حیران کردیا۔
تصوف، تاریخ اورسیاست کےموضوعات پر بھی قلم اٹھاتے ہیں۔راقمہ کا یہ تجربہ بھی ہے اور مشاہدہ بھی کہ وہ لوگ، جن کاتعلق علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ہوتاہے،یا رہا ہے ، ان کی ایک مضبوط علمی شخصیت بنتی ہے۔ یہ ایسا ماحول ہے ،جس جس کواس ماحول اور دھرتی نے پالا،وہ ہمہ گیر شخصیت کا مالک نکل آیا۔سرسید اور ان کے رفقا کی کوشش و شفقت سے جوروح علی گڑھ کے تعلیمی نظام میں پھونکی گئی ،وہ ابھی تک وہاں کی فضا ؤں میں موجود ہے اور محسوس بھی کی جاسکتی ہے۔ یہ روح و عظمت سید فخر الدین بلے میں رچ بس گئی ہے۔ وہ اس روح کو پاکستان ہجرت کر کے ساتھ لے آتے ہیں۔ یہاں ان کا ایک ہی جگہ پر ٹھہراؤ نہیں ، وہ مختلف شہروں میں رہائش پذیر ہوتےہیں ، وہ تعلقات عامہ اور صحافت سے وابستہ رہتےہیں ، انہی وجوہات کی بناء پر ان کے مختلف پہلوؤں میں گہرائی اورگیرائی پیدا ہوتی ہے۔ ہر فن کار کی تخلیقات ، اس کی شخصیت کا آئینہ ہوتی ہیں ۔ چنانچہ دیکھتے ہیں، بلے صاحب روشن دماغ اور مستقل مزاج آدمی تھے، وہ کسی تحریک سے وابستہ نہیں ہوتے، محترمہ بانو قدسیہ اور اسرار زیدی کے بقول:” وہ اپنی ذات میں انجمن ہی نہیں ، قافلہ بھی ہیں” یہی آزاد خیالی، یہی وسیع العلمی ان کی نثر ی اورنظمی تخلیقات میں نمایاں ہیں۔ اسی طرح ان کا مطالعہ مختلف میدانوں میں ہے ،جیسے علم نفسیات، علم الفلکیات، علم الاعداد ۔علم البشریات، علم المعدنیات وغیرہ وغیرہ اور ان تمام علوم و فنون کی چھاپ ان کے فن پاروں میں دکھائی دیتی ہے ۔ ان کی نظمیں اور غزلیات جدت پسندی کی مظہرہیں اور ایک الگ راستے میں ان کا شعری سفر نظرآتاہے ،جسے انہوں نے خود اپنے لیے تراشا ہے ۔اس لئے پورے اعتماد کے ساتھ آپ انہیں صاحبِ طرز شاعر قراردےسکتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہےکہ انہوں نے غزل کو وطن دوستی اور جمالیات سے ہم کنار کردیاہے۔ وہ عالمی واقعات سے بھی متاثر ہوکراپنے تاثرات کا شاعری میں بیان کرتے ہیں۔ ان کے عہد کے بڑےبڑے لوگوں نے بھی ان کی ادبی عظمت کوتسلیم کیا ہے ۔
——
یہ بھی پڑھیں : سید فخرالدین بلے علیگ : امید و رجا کے صاحبِ طرز شاعر اور دیدہ ور ادیب
——
“سید فخرالدین بلے ۔ایک آدرش، ایک انجمن” ایک خوبصورت کتاب ،نادر تالیف اور ایک ایسی کاوش کا نتیجہ ہے ،جس میں سید فخرالدین بلے کے بارے میں بہت سی اہم معلومات کویکجاکردیاگیا ہے۔بلے صاحب کی ذاتی شخصیت اور ان کی وسیع علمی خصوصیات کو پیش نظر رکھتے ہوئے دیکھتے ہیں کہ اس کتاب کا عنوان ہی نہیں بلکہ اس میں شامل تمام مضامین کے عنوانات بھی بڑی مہارت اورسلیقہ مندی سے چنے گئے ہیں ۔بلاشبہ کتاب کا یہ عنوان بلے صاحب کی ہمہ گیریت کو زیب دیتا ہے۔روزنامہ جنگ میں جمیل الدین عالی نے اپنے سلسلہ وار کالم ”نقارخانے میں ”بلے صاحب پر ایک یا دو نہیں، قسط وار تین کالم لکھےاور۔”سید فخرالدین بلے ۔ایک آدرش، ایک انجمن” کےتحت انہوں نے اپنی یادداشتوں کومرتب کردیا۔اہل ادب اور مرتبین کو یہ عنوان اتنا پسند آیا کہ انہوں نے اپنی کتاب کو اسی عنوان کےتحت یکجاکردیا۔ اس کتاب میں تمام مشہورزمانہ علمی اور ادبی شخصیات کےمضامین شامل ہیں ۔ اس کتاب کی ایک بڑی خوبی یہ ہےکہ علامہ سید غلام شبیر بخاری نے جو نصف صدی کی رفاقت بلے صاحب سے رکھتے تھے، ا یسا جامع خاکہ قلمبند کیا ہے, جسے پڑھنے کےبعد قاری کی تشنگی نہیں رہتی ۔ ان کے آبا و اجداد سے لے کر ان کی پیدائش ، ان کے نام کی وجہ تسمیہ، تعلیم، معاشرتی اور علمی سرگرمیوں کو تفصیلی بیان کیا ہے اور سوانحی حالات کے ساتھ ساتھ ان کی دل کش شخصیت کے خدوخال کی بھی تصویر کشی کی ہے ۔ یہ سوانحی خاکہ اتنی جزئیات کے ساتھ قلم بند کیا گیا ہے کہ باقی تمام مضامین ان کی شخصیت اور خدمات کی شرح معلوم ہوتے ہیں ۔اس سوانحی خاکے کوپڑھ کر بلے صاحب کی مینارقامت شخصیت قارئین کی آنکھوں کے سامنے آکر کھڑی ہوجاتی ہے۔ الفاظ و مضامین ہی نے اس کتاب کی وقعت اور قیمت نہیں بڑھائی بلکہ سجاوٹ،لے آؤٹ اور کچھ اور عناصر بھی کتاب کی قدر بڑھاتے نظر آتے ہیں ۔ یہ عناصر کتاب کی علمی و معلوماتی سطح پر اہمیت رکھتے ہیں۔ اس حوالے سے یادگار اور تاریخی تصویریں اہم کردار ادا کرتی ہیں اور یہ مجموعہ اسی کا مصداق ہے۔ڈاکٹر وفا یزدان منش نے اپنے مقدمے میں مزید لکھا ہے کہ اس کتاب کے آخری صفحات میں سیدفخرالدین بلے کی نعتیں،منقبت علی ،سلام بحضور امام عالی مقام کےساتھ ادبی شخصیت ایک دسترخوان ہے، جس میں طرح طرح اور رنگ برنگ کلیاں کھل گئی ہیں اور ان کی مہک سے اردو ادب کو مہکایا جائے گا۔ساتھ بلے صاحب کی کچھ شاہکار نظمیں اور غزلیں بھی شامل کی گئی ہیں ، جواس بات کی گواہی دے رہی ہیں کہ انہوں نے تمام اصناف سخن میں طبع آزمائی کی اوراپنے عہد کے استادان ِفن و سخن سے دادو تحسین ہی نہیں سمیٹی ،بلکہ اپنی شاعرانہ عظمت کا لوہابھی منوایا ہے ۔آئیے مل کر ان کے وفادار رہیں اورایک دوسرے سے عہد کریں کہ ان کی تخلیقات کوزندہ رکھنے اور ان پر کاوشیں جاری رکھے جانے سے ان کی محفل کوآباد رکھیں گے اور یہ چلن اپناکر ہم ارد و زبان و ادب کےبھی وفادار رہیں گے ۔
سیدفخرالدین بلے نے عبادت سمجھ کرادب و ثقافت کےفروغ کیلئے خدمات انجام دیں،انتظارحسین پاک و ہند کے معروف افسانہ نگار انتظار حسین نے سیدفخرالدین بَلّےکو ادب اور ثقافت کی ایک متحرک شخصیت قراردیا ۔ اسی عنوان کے تحت اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ فخر الدین بلّے بڑی متحرک قسم کی شخصیت تھے۔ جتنا بھی ان کے متعلق سنا ، جانا اور دیکھا ،انہیں سرگرم ِعمل ہی پایا۔ بظاہر سرکاری ملازمت کر رہے تھے مگر سرکاری ملازمت کو انہوں نے قومی فریضہ کی ادائیگی سے عبارت جانا۔
——
یہ بھی پڑھیں : سید فخرالدین محمد بلے علیگ کی حیات و خدمات کی کائنات
——
ہماری قومی زندگی میں جو شعبہ سب سے زیادہ توجہ کا محتاج تھا اور جس کی اہمیت کا کم لوگوں کو احساس تھا، اسے ہی انہوں نے اپنی سرگرمی کا میدان بنایا۔ یہ ادب، فنون اور تہذیب کا شعبہ تھا۔انہوں نے لاہور سے دور کے مقامات پر جا کر بھی فنون کے لئے بہت کام کیا۔ خاص طور پر تھیڑ پر ان کی توجہ تھی ۔اس کا تھوڑا تجربہ مجھے بھی ہے ۔ملتان اورراولپنڈی میں جا کر انہوں نے اس مقصد میں زیادہ کامیابی حاصل کی۔ اصل میں ان میں ایک ایسا وصف تھا ،جس کی وجہ سے وہ حالات کی ناسازگاری کے باوجود کسی نہ کسی طور کامیابی حاصل کرلیتے تھے ۔جن کے اندر کوئی لگن ہوتی ہے، ان میں ایک یہ صفت بھی ہوتی ہے کہ حالات کیسے بھی ہوں انہیں وہ اس طرح برتتے ہیں کہ ان کی لگن کی تسکین کی صورت پیدا ہوتی رہتی ہے۔ بلے صاحب میں یہ صفت بہرحال تھی۔ انہوں نے کس طرح ملازمت کی کہ ملازمت والے فرائض بھی پورے کئے اور جس کام کی انہیں چیٹک لگی ہوئی تھی، اسے بھی ملازمت کے ذریعہ پروان چڑھانے کا کام لیا۔ پھر ساتھ میں شاعری بھی کی، جتنی شاعری کی، اس کے ساتھ انصاف کیا۔ اس پر ان کا علمی کام مستزاد۔مختصر یہ کہ اس ملک کو سب سے بڑھ کر ایسے ہی لوگوں کی ضرورت ہے ،جو اپنے آپ کو کسی بھلے کام کے لئے وقف کرنے کا حوصلہ رکھتے ہوں مگر پاکستان میں اس نام کی مخلوق عنقا ہے۔ بلے صاحب نے اس ملک کے تہذیبی فروغ کے لئے اپنے آپ کو وقف کر رکھا تھا ،اپنی حد تک انہوں نے یہ کام جوش و جذبے کے ساتھ انجام دیا۔ ان کے اس جذبے اور اس کام کی ہمیں قدر کرنی چاہئے
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ