اردوئے معلیٰ

فلک زاد دیوی تمہیں کیا خبر ہے
کہ اک خاک زادہ
پروں کی جگہ عشق کے طوق باندھے
زمانوں سے پرواز کی خواہشوں میں مگن
اپنے سوکھے ہوئے خاکداں میں پھڑکتا رہا تھا
بدن جو کہ یوں بھی فقط خاک تھا، خاک پر رینگتا تھا
اسی خاک کے زرد جالوں میں الجھے ہوئے سوچتا تھا
کہ اک دن فلک کی بلندی پہ جا کر
نگاہِ غلط سے زمیں کو حقارت سے دیکھے گا
اور طنزیہ مسکراہٹ سے منہ موڑ لے گا
وہ جب رات کوخاک میں بِل بنا کر دبکتا تھا
تو آسماں کے ستاروں کو تکتے ہوئے
خوابِ پرواز کی حدتوں میں جھلستے ہوئے رات بھر جاگتا تھا
وہ تپتے ہوئے زرد دن کی سلگتی ہوئی ریت پر لیٹ کر
زرد سورج کو اک محویت سے ، منازل بدلتے ہوئے دیکھتا تھا
بدن جو کہ یوں بھی فقط خاک تھا، خاک پر لوٹتا تھا
کبھی ٹھیس لگنے پہ جب بھربھری خاک ماتھے سے گرتی تھی
تو خاک پلکوں سے ڈھانپی ہوئی خاک آنکھوں میں ٹھہری ہوئی
خاک کی پتلیوں میں بھی جنبش ابھرتی،
سرِ خاک دانِ تمنا ، سرکتی ہوئی خاک نظریں
افق کے کنارے پہ جا کر ٹھہرتیں
فلک، بے کراں وسعتوں کا ابد گیر ، بارعب چہرہ
زمیں پر جھکاتا تو شاید اسے خاک زادے کی ہستی نظر بھی نہ آتی
مگر خاک زادے کی بے مائیگی اور فلک کی بزرگی کے مابین
اک آرزو کا چمکتا ہوا تار تھا
گزرتے ہوئے وقت کی گردشوں سے تنا جا رہا تھا
یہ وہ بال جیسا ، سنہری ، چمکتا ہوا تار تھا جس کے دونوں سرے
آسماں کے قدم اور زمیں کے کلیجے میں پیوست ٹھہرے
سو یہ بھی اسی تار کا معجزہ تھا کہ یہ خاک زادہ
فلک کے قدم کی دھمک کو ہمیشہ کلیجے کے پردے پہ محسوس کرتا
باالفاظِ دیگر یہی تار تھا
جو کہ اس خاک زادے کی خوابوں کی دنیا کو تارِ تنفس ہوا تھا
سو یہ خاک زادہ ) جسے خواب زادہ کہا جائے تو بھی مناسب رہے گا)
اسی تار سے نارسا کہکشاں کے حسیں خواب بنتے ہوئے جی رہا تھا
فلک زاد دیوی تمہیں کیا خبر ہے
یہی تار تھا جو کہ اک روز آخر تمہارے پروں میں
تمہارے سبک ریشمی نقرئی جادوئی جھلملاتے پروں میں جو الجھا
تو آخر فلک کی بلندی سے تم پھڑپھڑاتے ہوئے
خاک زادے کے اجڑے ہوئے خاکداں کی جھلستی زمینوں پہ آ کر گری تھیں
فلک کی بلندی سے دھرتی کی پستی پہ یوں پھڑپھڑاتے ہوئے
آ کے گرنا ، بہت جاں گسل ، جان لیوا رہا تھا
سو بے ہوش تھیں تم ، تمہیں ہوش کب تھا
یہی وقت تھا جب کہ یہ خآک زادہ زمیں پر سرکتا ہوا
رینگتا رینگتا ، جھینپتا اور جھجھکتا ہوا ، کانپتا ، تھرتھراتا ہوا جسم لے کر
تمہاری مہک سونگھتا سونگھتا آن پہنچا
وہ حیران بھی اور مسرور بھی تھا
تمہارے دمکتے ہوئے کانچ ایسے حسیں خال و خد کو
مہکتے ہوئے ریشمی نقرئی جادوئی جھلملاتے پروں
اور کورے کنوارے تراشے ، سنوارے ہوئے تن کی دوشیزگی کو
وہ خود اپنے ہاتھوں سے چھونے پہ قادر ہوا تھا
وہ مسرور تھا کیونکہ ان جھلملاتے پروں میں
وہ اپنے ہی اڑنے کے خوابوں کو جیتا ہوا دیکھتا تھا
وہ مسرور تھا کیونکہ اب عشق کے طوق دھرتی پہ دھر کر
انہی جھلملاتے پروں کو پہن کر فلک کی حسیں وسعتوں میں
پہنچنے کی صورت بھی آخر میسر ہوئی تھی
مگر ، جب وہ پر نوچنے کو تمہاری طرف رینگتا آ رہا تھا
تبھی برگزیدہ فلک کی نگاہوں نے حیرت سے دیکھا
کہ وہ خاک زادہ تمہارے چمکتے پروں سے الجھتے ہوئے تار کو
کپکپاتے ہوئے ہاتھ سے تھام کر اپنے دانتوں سے کاٹے چلے جا رہا تھا
تمہیں ہوش کب تھا کہ وہ کم سخن تم کو آغوش میں بھر کے
تپتے ہوئے دن میں ڈھانپے رہا تھا
تمہیں ہوش آیا تو دن ڈھل چکا تھا
کوئی بھی نہیں تھا ، نہ وہ خاک زادہ، نہ تارِ تنفس
تمہارے سبک جھلملاتے ہوئے ریشمی پر
فضاؤں میں پرواز کرنے کو پہلے کی مانند آزاد ٹھہرے
سو تم صرف حیرت لیے اپنی آنکھوں میں
واپس فلک کی بلندی کو پرواز کرتے ہوئے جا چکی ہو
فضاؤں کی وسعت سے دھرتی کی پستی تلک
اب کوئی تار گرچہ نہیں رہ گیا ہے
مگر آج بھی کوئی ہے جو زمیں کھود کر بِل بناتا ہے
تو ایک روزن فلک کی بلندی کی جانب کھلا چھوڑتا ہے
تمہیں کیا خبر ہے فلک زاد دیوی

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔