شاہِ کونین کا سنگِ در چھو لیا
گویا خاکِ عجم نے قمر چھو لیا
میرے لفظوں کو رتبہ ملا نعت کا
میرے خامہ نے اوجِ ہنر چھو لیا
جب نظر نے چھوا گنبدِ سبز کو
اک اماوس نے روئے سحر چھو لیا
جس کی تنصیب دستِ کرم سے ہوئی
مجھ گنہگار نے وہ حجر چھو لیا
دل مدینے کی خاطر مچلنے لگا
زائروں کا جو رختِ سفر چھو لیا
جس پہ رہتے ہیں حاضر ہزاروں ملک
میری پلکوں نے وہ مستقر چھو لیا
آپ کا واسطہ دے کے مانگی گئیں
سب دعاؤں نے بابِ اثر چھو لیا
لفظ نے چھو لیے مدحتوں کے قدم
خشک ٹہنی نے شیریں ثمر چھو لیا