شبِ معراج ہے کیا کچھ لُٹایا جا رہا ہے
سفر کا ایک اِک رستہ سجایا جا رہا ہے
تمہاری شان کے صدقے امامِ قدسیاں سے
قدم بوسی کراکے پھر جگایا جا رہا ہے
صفیں سیدھی ملائک کررہے ہیں بہرِ عزت
پروں کا فرش بھی اب تو بچھایا جا رہا ہے
خُدا کے حکم سے نبضِ زمانہ رُک چکی ہے
مکاں سے لامکاں تک اُن کو لایا جا رہا ہے
رُسل کو انبیاء کو قدسیوں کو عالمیں کو
تری توقیر کا جلوہ کرایا جا رہا ہے
کھلے گی نُورِ آقا کی حقیقت آج کی شب
یہ جبریلِؑ امیں کو بھی بتایا جا رہا ہے
درودوں والے آقا آج گزریں گے اِدھر سے
یہ مژدہ عرشیوں کو بھی سنایا جا رہا ہے
نبی کی شانِ محبوبی پہ ہرعظمت فدا ہے
کہ قربِ ذات میں اب تو بلایا جا رہا ہے
بڑے ہی ناز میں ہے کبریائی تیری خاطر
ازل کے راز سے پردہ ہٹایا جا رہا ہے
شکیلؔ اُن کو خدا نے کیوں بھلا لوٹا دیا ہے
سنا ہے اِس جہاں کو پھر بسایا جا رہا ہے