اردوئے معلیٰ

شرمندہ سا لرزیدہ سا میں صحنِ حرم میں آیا ہوں

لے کر اک بوجھ گناہوں کا، میں صحنِ حرم میں آیا ہوں

 

گر تو نہ بخشے گا مجھ کو، پھر کیسے بخشش پاؤں گا

کر کے اُمیدیں وابستہ، میں صحنِ حرم میں آیا ہوں

 

اِک ٹوٹی ہوئی سی ڈالی ہوں، میں تیرے کرم کا سوالی ہوں

دل کو تھامے گرتا پڑتا، میں صحنِ حرم میں آیا ہوں

 

پیشانی جُھکی تیرے آگے اور سامنے کعبے کا جلوہ

تو مجھ کو یقینا بخشے گا، میں صحنِ حرم میں آیا ہوں

 

پاؤں میں گناہوں کی بیڑی، ہاتھوں میں لگی ہیں ہتھکڑیاں

حاضر ہے مجرم اے مولا، میں صحنِ حرم میں آیا ہوں

 

کھوئی ہے اُمّت کھیلوں میں، مسلم ہے مست جھمیلوں میں

کچھ حال سنانے اُمّت کا، میں صحنِ حرم میں آیا ہوں

 

مکہ اور مدینہ دونوں حرم، ہیں دونوں اُجاگرؔ ابرِ کرم

دونوں ہیں ہدایت کا رستہ، میں صحنِ حرم میں آیا ہوں

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ