اردوئے معلیٰ

شعور و عقلِ بشر کی عیاں ہے مجبوری

ثنائے سرورِ عالم ہو کس طرح پوری

 

ہے دور شہرِ مدینہ تو یہ ہے مجبوری

پر اس کی یاد میں حائل نہ ہو سکے دوری

 

خجل ہو ماہِ منوّر وہ چہرۂ نوری

وہ بوئے زُلفِ دوتا ہے کہ ہیچ کستوری

 

فروغِ نور سے منظر ہے دیدنی دل کا

جب ان کی یاد کی جلتی ہو شمع کافوری

 

سنبھال کراسے رکھ اپنے سینہ و دل میں

متاعِ بیش بہا ہے یہ دردِ مہجوری

 

وہ لا مکاں میں قدم زن ہوا تنِ تنہا

مقامِ سدرہ پہ روح الامیں کو معذوری

 

خدا کا بندۂ محبوب سرورِ کونین

اسی نے ہم کو سکھائی ادائے جمہوری

 

نگاہِ مست کے صدقے کہ اک اشارے پر

اُٹھا کے مستوں نے پھینکی شرابِ انگوری

 

پسینہ خشک نہ ہو پائے از تنِ مزدور

ہے اس کا حکم کہ پہلے ادا ہو مزدوری

 

ہمیں نہ فخر ہو کیوں کالی کملی والے پر

ہیں ٹھوکروں میں پڑے جس کی تاجِ فغفوری

 

پہنچ کے روضۂ انور پہ میں سلام پڑھوں

نظرؔ یہ دل کی تمنّا خدا کرے پوری

 

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے

اشتہارات

لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔

حالیہ اشاعتیں

اشتہارات

اشتہارات