شمیمِ ذوقِ عمل مدتوں سے آئی نہیں
نمودِ عشق ہمالہ، خلوص رائی نہیں
تڑپ رہا ہے یہ دل حاضری کو مدت سے
پہنچ کے روضے پہ رُودادِ غم سنائی نہیں
مجھے نصیب نہیں آفتاب کا پر تو
شبِ سیاہ میں لمعات کی رسائی نہیں
ہم اپنا حال بدلنے کا عزم ہار گئے
اگرچہ کون سی ذلت ہے جو اُٹھائی نہیں
بجا کے ملتِ بیضا کی نسبتیں ہیں وہی
مگر اب اس میں وہ پہلی سی خوش اَدائی نہیں
بدل کے رکھ دوں یہ ماحول اپنی مرضی سے
مرے حضور ! یہ توفیق میں نے پائی نہیں
جو نذر کر کے میسر ہو رَبّ کی خوشنودی
کچھ ایسی کاسۂ اعمال میں کمائی نہیں
پہنچ کے روضۂ انور پہ یہ صبا کہہ دے
’’کہ مجھ کو منزلِ اظہار تک رسائی نہیں‘‘٭
حضور ہی کی عنایات کی ضرورت ہے
پسند آپ کو بھی میری جگ ہنسائی نہیں
میں آپ اپنے ہی ماحول سے گریزاں ہوں
کہ اس میں درد نوازوں کی اب سمائی نہیں
ہزار طرح کی یاں اختیاط لازم ہے
عزیزؔ مدحتِ آقا، غزل سرائی نہیں!